Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر20

ساوی اپنے کمرے کی ہو کے رہ گئی تھی سب اُس کے رویے پہ حیران تھے آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ درید سے بات نہ کرے اور اُس کا دن گُزر جائے۔ اور اب اُس کے ایکسیڈنٹ کی خبر سُن کے بھی وہ اُس سے ملنے نہیں گئی تھی درید نے اپنی طرف سے یہ کہہ کر اُنہیں ٹال دیا تھا کہ ساوی اُس سے ناراض ہے ۔۔۔ پتہ نہیں وہ مطمئن ہوئے تھے یا نہیں مگر اُس کے بعد کسی نے ساوی کو کُچھ نہیں کہا تھا۔ باقی کے دِن پلک جھپکتے گُزرے تھے درید کے زخم کافی حد تک ٹھیک ہو چکے تھے مگر پھر بھی اُسے کمر کے بل لیٹنے پر تکلیف ہوتی تھی۔۔ ساوی اور درید کی شاپنگ افرحہ اور شایان نے ہی کی تھی کہ درید ٹھیک نہیں تھا اور ساوی کا رویہ اُن کی سمجھ سے باہر تھا جو کہ بلکل گُم صُم سی ہو گئی تھی کوئی اُس سے بات کرتا تو وہ جواب دے دیتی ورنہ چُپ ہی رہتی۔ ساوی اور درید اپنے اپنے روم میں ہی تھے جبکہ افرحہ اور شایان باہر لان میں بیٹھے تھے اور مراد صاحب آفس گئے تھے۔ نادیہ بیگم ساوی کے کمرے کے باہر کھڑی دستک دے رہیں تھیں ۔ پانچ منٹ بعد دروازہ کُھل گیا اور ساوی کی شکل دِکھائی دی۔ وہ نادیہ بیگم کو دیکھ کر بغیر کُچھ کہے اُنہیں اندر آنے کا راستہ دیتی ایک طرف ہٹ گئی۔۔ وہ بھی اُس کا سنجیدہ سا چہرہ دیکھتیں بیڈ پر جا کر بیٹھ گئیں۔ ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو مجھے تُم سے کُچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ انہوں نے اُسے اپنے پاس بُلایا۔ وہ چُپ چاپ آکر ایک طرف بیٹھ گئی اور بیڈ شیٹ پہ نظریں جمائے ناخن سے شیٹ پہ بنے ڈیزائین کو کھُرچنے لگی۔۔۔ پہلے تو مجھے یہ بتاو کہ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پہلے تو ایسی نہیں تھی ۔ ہر وقت گُم صُم سی رہتی ہو نہ کسی سے کُچھ بولتی ہو ۔ تمہارے اکلوتے بھائی کی شادی ہے تمہیں تو جوش و خروش سے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے مگر تُم ایسے کمرہ بند ہو کر بیٹھ گئی ہو۔ کیا ہوا ہے؟ مجھے بتاو کوئی پریشانی ہے؟ وہ اُس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے پیار اور فکرمندی سے استفسار کر رہیں تھیں۔۔ ایک پل کو اُس کا دل کیا سب کُچھ بتا دے اپنے دل میں چھُپی ہر اذیت، وحشت اور تکلیف سب باہر نکال دے۔ اُن کی ممتا کی گود میں چھُپ جائے مگر ایسا وہ صرف سوچ ہی سکتی تھی اُنہیں بتا دیتی تو کیا ہوتا؟ اُن کو جتنی تکلیف صدمہ ہوتا اُس سے اُن کی طبعیت بِگڑ جاتی اور اگر اُنہیں کُچھ ہو جاتا تو وہ کبھی خود کو معاف نہ مر پاتی۔ وہ آنکھوں میں آئے آنسو اپنے اندر ہی کہیں اُتار گئی۔۔ کُچھ نہیں ہوا ماما میں ٹھیک ہوں بلکل بس کُچھ دنوں سے طبیعت ٹھیک نہیں تو سُست سی ہو گئی ہوں اب آپ کو پہلے والی ساوی ہی ملے گی۔۔۔ اُس نے یہ الفاظ کس اذیت سے کہے تھے اُس کا دل ہی جانتا تھا۔ شاباش میرا بیٹا خوش رہو۔۔۔ وہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتیں بولیں۔ آپ کو کُچھ بات کرنی تھی؟ اُس نے اُنہیں یاد دِلایا۔ ہاں ! دراصل میں تُم سے تُمہارے رشتے کی بات کرنے آئی ہوں۔ اُن کی بات سُن کر اُسے جھٹکا لگا وہ تو بھول ہی گئی تھی کہ اُس کا رشتہ طے ہو چُکا ہے۔ اُس کے پاس اُس کی عزت نہیں تھی کیا کوئی اُسے قبول کرے گا؟ ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا جو اُس کے سامنے آکے کھڑا ہو چکا تھا۔۔ تُم نے اُس دن لڑکے کا نام تو پوچھا ہی نہیں تھا اِس لیے میں تمہیں خود ہی بتانے آگئی تا کہ تُم سوچ سوچ کے پریشان نہ ہوتی رہو۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پیار سے کہا۔ کک کون ہے وہ؟؟ اُس نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔۔ میں تُمہیں کسی اور کے حوالے کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں ؟ درید تمہارے لیے بہترین ہے اُس سے بہتر تمہارے لیے کوئی ہو ہی نہیں سکتا اِسی لیے ہم نے سوچا کہ تم دونوں کا رشتہ اناونس کر دیتے ہیں تاکہ تُم دونوں کو اِس رشتے کا اور اپنی حدود کا احساس ہو ۔۔۔۔۔ ایک دھچکا تھا جو اُس کے دل کو لگا تھا تکلیف کی ایک شدید لہر اُس کے دل میں اٹھی تھی۔۔ دد درید کے ساتھ نہیں ماما مجھے درید سے شادی نہیں کرنی۔ کسی سے بھی کروا دیں مگر درید سے نہیں ۔۔۔ وہ ایک دم آپے سے باہر ہوتے بولی۔ وہ اُس انسان سے شادی کیسے کر سکتی تھی جس نے اُس کی سب سے انمول چیز چھین لی تھی جب اُس نے شادی سے پہلے اُس کی عزت کا خیال نہیں کیا وہ شادی کے بعد کیا خیال رکھتا ۔ نادیہ بیگم اُس کا ری ایکشن دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔ انہیں تو لگا تھا وہ درید کی طرح خوش ہو گی بچپن سے وہ دونوں ساتھ تھے ایک دوسرے کو سمجھتے تھے اور اب وہ ساوی کے منہ سے یہ بات سُن کر بھڑک گئیں تھیں۔۔ کیا بکواس کر رہی ہو تُم ؟ کیوں نہیں کرنی تُمہیں اُس سے شادی؟ وہ غصے سے استفسار کرنے لگیں۔ بس میں نے کہہ دیا مجھے نہیں کرنی اُن سے شادی کسی قیمت پر بھی۔ وہ سپاّٹ سرد لہجے میں انکار کر گئی ۔ شادی تمہاری صرف سے ہی ہو گی اُس کے علاوہ تُمہاری شادی کسی سے نہیں ہو سکتی یہ بات اپنے دِماغ میں بٹھا لو تُم۔۔ انہوں نے بھی بھڑکتے ہوئے اُسے جواب دیا۔ کیوں کیوں نہیں ہو سکتی کسی اور سے شادی؟ وہ چیخی۔ کیونکہ تُم اُسکے۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ بات مکمل کرتیں کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی درید اندر آیا ۔۔ چچی ماں آپ جائیں میں بات کرتا ہوں۔۔۔ اُس نے نادیہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بیٹا تُم یہاں کیوں آگئے تمہارے زخم ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئے ۔۔۔۔ وہ پریشانی سے گویا ہوئیں۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں پلیز۔۔۔۔ وہ اُن کو تسلی دیتا بولا۔۔ ٹھیک ہے مگر دھیان سے ۔۔۔ اور اِسے بھی سمجھا دینا کوئی اُلٹا سیدھا خیال ذہن میں نہ لائے اس کی شادی صرف تُم سے ہی ہو گی اور اب شایان کے ولیمے پہ ہی اِس کی رُخصتی ہو گی۔۔۔ اُنہوں نے درید کو کہتے اپنا فیصلہ بھی سُنایا جسے سُن کر ساوی تڑپ اُٹھی مگر نادیہ بیگم بغیر اُس پہ نگاہِ غلط ڈالے کمرے سے چلیں گئیں اور وہ درید کو زخمی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ درید نے دروازہ لاک کیا تو وہ خوف سے اُس کی طرف دیکھنے لگی۔۔ دد دروازہ کک کیوں بند کیا؟ کک کھولیں اُسے۔۔۔۔ وہ ڈر و خوف سے پیچھے کی طرف کھسکنے لگی اور اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری بے یقینی دیکھ کر درید کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے۔۔۔ اتنی بے اعتباری؟ جانتا ہوں غلط کیا میں نے مگر اُس دن میں ہوش میں نہیں تھا اور مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ تم وہاں ہو سکتی ہو۔ میں وہی درید ہوں ۔ مجھے بے اعتباری کی موت مارو جو گناہ کیا ہے اُس کی سزا بھگت چکا ہوں میں تُم بھی معاف کر دو ۔۔۔۔ وہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑتا اذیت سے بولا۔ ہنہ سزا کیا سزا بھگتی ہے آپ نے ایک ایکسیڈنٹ سے آپ کو لگتا ہے آپ کا گناہ معاف ہو جائے گا ؟؟ میری عزت واپس آجائے گی ؟؟ بلکل نہیں کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو۔ آپ کے نام کا مطلب پتہ ہے کیا ہے؟ جانور۔۔۔۔ اور آپ نے سچ میں ثابت کر دیا کہ آپ ایک جانور ہیں۔۔۔۔ وہ درید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی تلخی سے بولی۔ ایکسیڈنٹ نہیں ہو میرا شریعت کے مطابق سزا ملی ہے مجھے یقین نہیں تو یہ دیکھو۔۔۔۔۔ اُسے جواب دیتا وہ بمشکل شرٹ اُتارتا اُس کی طرف پُشت کر کے کھڑا ہو گیا۔۔۔ ساوی نے زرا کی زرا نگاہ اُس کی طرف اُٹھائی اور اُس کی پُشت کو سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورنے لگی۔ پوری کمر پہ نیل کے نشان تھے لمبی لمبی کُچھ سُرخ اور کُچھ براون ہوتی لکیریں جو کندھے سے لے کر نیچے کمر تک جاتی تھیں ایسی بہت سی آڑھی ترچھی لکیریں تھیں جو اُس کے بازووں پر بھی موجود تھیں کُچھ پہ کھرنڈ جمنا شروع ہو گیا تھا وہ زیادہ دیر دیکھ نہ سکی اور نظریں ہٹا لیں۔ وہ اپنی پُشت پہ اُس کی نظریں محسوس کرتا اُس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر اُس نے کاکُچھ بھی نہ کہا۔ شریعت کے مطابق سزا لیں یا قانون کے مطابق میرا فیصلہ نہیں بدلے گا مُجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔ ساوی پلیز ایک بار میری بات۔۔۔۔۔ وہ کُچھ اور بولتا کہ وہ تندہی سے اُس کی بات کاٹ گئی ۔ اساورہ نام ہے میرا خبردار جو مجھے ساوی کہا جس کو مجھے ساوی کہنے کا حق تھا وہ مرچُکا ہے میرے لیے۔۔۔۔ اُس کی بات پہ وہ بے یقینی سے اُس کی طرف دیکھنے لگا جس کا چہرہ تاثرات سے پاک تھا۔۔۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے باہر نکل گیا اُس میں اور ہمت نہیں اُس نوکیلے الفاظ جھیلنے کی۔۔۔ اُس کے نکلتے ہی ساوی نے ٹھک سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔۔۔


وہ تھکا ہارا آفس سے آکے لاونج میں بیٹھا تھا بزنس کا سارا کام اُس کو اکیلے ہی دیکھنا پڑتاتھا جس کی وجہ سے وہ کافی تھک جاتا تھا ابھی بھی وہ صوفے کی پُشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ بوا پانی کا گلاس لے آئیں وہ گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگا پانی پی کے گلاس بوا کو واپس دیا اور دوبارہ صوفے سے ٹیک لگا لی۔ بوا وہیں کھڑیں تھیں اُسے اچھنبا ہوا۔ کیا بات ہے بوا ؟ کُچھ کہنا ہے ؟ اُس نے استفسار کیا۔ جی بیٹا وہ آج نور بیٹی کا فون آیا تھا۔۔ بوا کی بات سُنتے ہی وہ ایک دم اُچھل پڑا کیا کب؟ کس نمبر سے؟ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟ اُس نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر دیے ۔ وہ بیٹا میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی کہ آپ آئیں تو میں آپ کو بتاوں ۔۔۔۔ بوا نے جواب دیا۔۔ کیا بات ہوئی آپ کی کہاں ہے وہ اُس نے اپنا پتہ بتایا؟؟ اُس نے بے تابی سے پوچھا۔ جواب میں بوا نے فون پہ ہوئی ساری بات حرف بہ حرف بتا دی جبکہ اُن کی آخری بات سُن کے اُسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ آپ کو اُسے نہیں بتانا چاہیے تھا بوا اُس کی حالت ٹھیک نہہں تھی اگر اس نے سٹریس لے لیا تو ؟؟؟ اُس سے آگے اُس سے کُچھ سوچا ہی نہ گیا۔ پھر کُچھ خیال آتے وہ لینڈلائن فون کی طرف بھاگا اور اُس پہ آنے والی کالز چیک کرنے لگا۔ کال لاگ میں صرف ایک ہی کال ریسیو ہوئی تھی مطلب اِسی نمبر سے فون آیا تھا ۔ اُس نے جلدی سے نمبر نوٹ کیا اور حیدر کے نمبر پہ سینڈ کیا اور اُسے کال ملائی جو جلد ہی اُٹھا لی گئی۔۔ میں نے ایک نمبر سینڈ کیا ہے تمہیں۔ اُس کی لوکیشن ٹریس کرواو اور جلد سے جلد کرواو جتنی جلدی کام ہو گا اُتنی جلدی تمہاری جان چھوٹے گی۔۔۔ دوسری طرف سے کُچھ بھی سُنے بنا اُس نے اپنی کہی اور حُکم نامہ جاری کر کے فون بند کر دیا۔ بوا کچن میں جا چکیں تھیں۔ اب اُسے یقین تھا کہ بہت جلد وہ اُس تک پہنچ جائے گا اب اور دیر نہیں کرے گا۔۔۔ بیس منٹ بعد اُسے فون پہ میسج موصول ہوا اُس نے کھول کے دیکھا تو وہ کسی ہسپتال کا اڈریس تھا اور یہ وہ ہسپتال ہرگز نہیں تھا جہاں اُس نے اُسے دیکھا تھا۔۔۔ وہ فون جیب میں رکھتا اُٹھا اور باہر آکر گاڑی سٹارٹ کرتا زن سےگھر سے نکل گیا اُسے بہت جلدی تھی اُس سے ملنے کی۔۔۔


نادیہ بیگم کے پوچھنے پر درید نے بتا دیا تھا کہ ساوی نہیں مانی اُس کی بات سُن کر نادیہ بیگم کو نئے سرے سے غصہ آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ زبردستی یا رضا مندی سے ساوی کی شادی درید سے ہی ہو گی۔۔۔۔ ساوی اپنے کمرے میں ہی محصور تھی نادیہ بیگم نے شایان اور مراد صاحب کو ساوی کے انکار کا نہیں بتایا تھا۔ جبکہ افرحہ کی بار بار کوشش پر بھی ساوی نے اُسے کُچھ نہیں بتایا تھا اور اب افرحہ نے بھی چُپ سادھ لی تھی۔ آج رات کو مہندی تھی صبح سے اُن کے گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا عانیہ لوگ بھی آئے تھے حنا بیگم اور اشعر تو نہیں آنا چاہتے تھے مگر وقار صاحب کے اصرار پر اُن کو آنا پڑا۔ عانیہ سب باتیں بھلائے نادیہ بیگم کے ساتھ اُن کی ہیلپ کروا رہی تھی۔ جبکہ عانیہ کو اُن کے ساتھ کام کرتا دیکھ کر حنا بیگم اندر ہی اندر جل رہیں تھیں مہمانوں والا گھر تھا عانیہ کو منع بھی نہیں کر سکتیں تھیں۔ صبح سے رات ہو گئی مگر ساوی اپنے کمرے سے باہر نہ نکلی مہمانوں کے پوچھنے پر نادیہ بیگم نے کہا کہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ حنا بیگم کو حیرانی تو ہوئی مگر پھر کندھے اچکا گئیں۔۔۔ افرحہ تیار ہو کے بیٹھی تھی اُس نے پیلے رنگ کا لہنگا پہنا تھا موتیے اور گلاب کے پھولوں کا زیور پہنے وہ خود بھی ایک پھول لگ رہی تھی۔ لائٹ سے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اُسے ساوی کی کمی بُری طرح محسوس ہو رہی تھی مگر پھر اُس کی طبیعت خرابی کا سوچتی گہرا سانس لے کے رہ گئی۔ لڑکیوں نے ڈھولکی رکھی ہوئی تھی اور ساتھ میں گانے گا رہیں تھی دو لڑکیاں افرحہ کے دائیں بائیں بیٹھیں اُسے مہندی لگا رہیں تھیں۔ مہندی لگانے کے بعد افرحہ کو شایان کے ساتھ جھولے پہ بٹھا دیا گیا شایان نے اُسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا اُس نے ہمیشہ افرحہ کو سادگی میں ہی دیکھا تھا اور آج پہلی بار اُسے تیار دیکھ کر اُس کے دل کی دُنیا زیروزبر ہوئی تھی۔ سب کی نگاہیں اُن کی طرف تھیں اس لیے وہ اپنی نگاہوں کو کنٹرول کرتا نظریں پھیر گیا وہ خود اس وقت سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور بہت ہنڈسم لگ رہا تھا۔۔۔ پھر باری باری سب عورتیں آتیں اور اُنہیں سلامی کے ساتھ دعائیں دیتیں۔ عانیہ اُسے مہندی لگانے آئی تو وہ خواہ مخواہ ہی شرمندہ ہو گئی۔ عانیہ اُس کی بائیں طرف بیٹھی جبکہ دائیں طرف شایان بیٹھا تھا مجھے معاف کر دو عانیہ ! میری وجہ سے تم اور شایان ۔۔۔۔ وہ عانیہ کی طرف جھکی اور بھی کُچھ کہتی کہ عانیہ اُس کی بات کاٹ گئی۔۔۔ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے افرحہ! یہ سب تو قسمت کی باتیں ہیں۔ شایان کا ساتھ میری قسمت میں لکھا ہوتا تو یہاں آج میں بیٹھی ہوتی مگر یہی تو بات ہے کہ شایان کا ساتھ تمہارے نصیب میں لکھا تھا اِسی لیے آج یہاں تم ہو۔ مجھ سے معافی مت مانگو پلیز۔۔۔۔ وہ نرمی سے کہتی اپنی نم آنکھیں لیے وہاں سے اُٹھ گئی اور افرحہ اُس کی پُشت دیکھتی رہ گئی جبکہ شایان اُن کی باتیں سُن چکا تھا مگر چُپ رہا۔۔۔ حنا بیگم نے افرحہ کو مہندی نہیں لگائی تھی نہ ہی نادیہ بیگم نے اُن کو کہا۔۔۔ رات ایک بجے کے قریب یہ تقریب ختم ہوئی تو افرحہ نے سُکھ کا سانس لیا وہ بیٹھ بیٹھ کے بہت تھک گئی تھی مہندی بھی سوکھ چکی تھی وہ ہاتھ دھونے واش روم چلی گئی پھر واپس آکے پھولوں کی جیولری اتارنے لگی۔ ابھی اُسے میک اپ بھی صاف کرنا تھا اس سے پہلے کہ وہ واپس واش روم جاتی کہ کوئی عجلت میں روم میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کرتے اُس کی طرف بڑھنے لگا۔۔ آپپ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں کسی نے دیکھ لیا تو پلیز جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔ وہ اُس اپنے کمرے میں دیکھتی بوکھلا گئی۔ کوئی دیکھتا ہے تو دیکھے. میری مسز ٹو بی ہو یار اتنا ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔۔ شایان نے اُس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟ وہ سوالیہ ہوئی ۔ یار باہر تو میں تمہیں صیح سے دیکھ بھی نہیں سکا اور نہ ہی تمہاری تعریف کر سکا اِس لیے اب میں یہاں تمہاری تعریف کرنے اور تمہیں دیکھنے آیا ہوں اور اب تو کوئی ڈسٹرب بھی نہیں کرے گا ۔۔۔۔وہ اُس کا چہرہ دیکھتا اپنا پلان بتانے لگا۔۔۔۔ آپ کل کر لیجیے گا تعریف ابھی جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔ وہ اُسے ٹالتی ہوئی بولی۔ کل تو کل کے حصے کی کروں گا نا آج کے حصے کی تو ابھی کرنی ہے نہ اب چپ بلکل ۔۔۔۔۔۔ وہ اُس کی طرف غور سے دیکھتا اُسے کمر سے جکڑ گیا۔۔۔ بہت بہت پیاری لگ رہی ہو اتنی کہ دل کر رہا ہے کھا جاوں تمہیں۔۔۔۔۔ وہ معنی خیزی سے بولا ۔ اب جج جائیں ۔۔۔۔ وہ بلش ہوتی منمنائی۔ اچھاااااا وہ اچھا کو کھینچتا اُس پہ جھک گیا اور دیوانہ وار اُس پہ اپنی چاہت لُٹانے لگا کہ وہ اُس کی گرفت میں کسمسانے لگی۔ وہ اُس سے الگ ہوا تو افرحہ رُخ موڑے گہرے سانس بھرنے لگی۔ یار میری طرف دیکھو گی تو تعریف کروں گا نا ۔۔۔۔۔ وہ اُس کا رُخ موڑتے بولا۔ مجھے نہیں کرانی ۔ اب آپ جائیں یہاں سے۔۔۔۔ وہ شرم۔سے سُرخ ہوتی کہنے لگی۔ مجھے تو کرنی ہے نا وہ بھی اپنی انداز میں۔۔۔۔ وہ اُسے اُٹھاتا بیڈ تک لایا اور آرام سے لٹا دیا۔ ابھی وہ اُس پہ جھکتا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ گئی ہاتھ ہٹاو ورنہ ہاتھ کاٹ کے ساتھ لے جاوں گا۔۔۔۔ وہ اسے شرارت سے دھمکی دینے لگا وہ اُس کی بات پہ آنکھیں پھاڑے منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی کہ وہ ہنستا اُس کی بے وقوفی پہ اُس کے دونوں ہاتھ قید کر گیا اور اُس کے لبوں پہ اپنی محبت کی مہر لگانے لگا افرحہ کو لگا جیسے اُس کی سانسیں رُک جائیں گی وہ اُسے پیچھے دھکیلنے لگی مگر مقابل شاید آج اپنی برسوں کی تشنگی مٹا رہا تھا ۔ بے بسی سے اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔۔۔ شایان اپنے ہونٹوں پہ اُس کے آنسو محسوس کرتا اُس کی جان بخش گیا۔ اور اُس کے ماتھے سے ماتھا ٹکا گیا۔ کتنا زبردست ہتھیار ہے نا تم عورتوں کے پاس مرد کو اپنے قابو کرنے کا۔۔۔ وہ اُس کے آنسو چُنتا ہوا شرارت سے بولا کہ وہ اُسے دھکا دیتی اٹھ بیٹھی۔۔۔ کیا ہوا تعریف پسند نہیں آئی ؟ چلو پھر کل تک کا انتظار کر لو کل اپنے سٹائل میں تعریف کروں گا آج تو تمہارے سٹائل میں کی ہے۔۔۔۔ وہ اُسے آنکھ مارتا بولا کہ وہ اُس کے سینے پہ چپت لگا گئی۔ جائیں یہاں سے اب۔۔۔۔ وہ خفگی سے بولی۔ اچھا اچھا جا رہا ہوں مگر کل کے لیے خود کو تیار کر کے آنا کیونکہ کل کی رات صرف تمہاری تعریف میں بسر ہو گی اور میں کوئی رعایت نہیں دوں گا۔۔۔ وہ جاتے جاتے مڑ کر بولا اور باہر نکل گیا ۔۔۔ افرحہ نے اُٹھ کے دروازہ لاک کیا اور پھر چینج کرنے چلی گئی۔۔۔۔

   0
0 Comments